شہر شہر عوامی ہجوم فریاد کناں ہے،چیخ چیخ کر پوچھ رہاہے: مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟ ایسے میں سرمایہ دار کیا کرے گا؟تاجر کب تک پیسہ ڈوبتا دیکھتے رہیں گے؟مزدوراپنے آنگن میں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہ زاری پر کب تک خاموشی اختیار کرے گا؟ آخر انسان ہیں،صبرکی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لہذا سپہ سالار اب مزید انتظار مت کریں ۔ عدلیہ بھی عرصہ امتحان میں ہے ۔کیا کوئی ڈوبنے والا بھی بوجھ اٹھایا کرتا ہے؟نہیں ،ہرگز نہیں۔سپہ سالار کے سر پر ہی دستار رکھی ہے ۔ آنے والا کل کیا لائے گا؟ کچھ کہنا قبل ازوقت ۔مگر حالات بتا رہے ہیں کہ سپہ سالار نے عزم صمیم کر لیا ہے ۔یہ سب میرا گمان نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں۔ ڈالرکی آگے کی بجائے پیچھے کو دوڑ شروع ہوچکی۔تاجر برادری بھی مطمئن۔ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ پالیسیاںبناؤ، اپنی ملکی آمدن، زرمبادلہ کو بڑھاؤ۔ ایسی پالیسیاں بناؤ کہ اپنے ملک سے باہر جانے والے ڈالر کی تعداد کو کم کرسکو۔ درآمدات میں کمی کرو۔ ایسی پالیسیاںبناؤ کہ آپ کے ملک کی انڈسٹریز، زراعت اور سروسز کا شعبہ ترقی کرے۔اپنے ملک کا ایسا بجٹ بناؤ جو کہ ’’ون بروکن ونڈو لیگیسی‘‘ کی بجائے پروڈکٹیو بجٹ ہو۔ 16مہینوں میں ان تمام بنیادی اصولوں سے انحراف کیا گیا۔ ڈالر فکس، ایکسپورٹ تباہ، زراعت برباد،انڈسٹری کا بیڑہ غرق۔ یہاں ہر بجٹ ’’ون ونڈو بروکن لیگیسی‘‘ کے تحت بنایا جاتا ہے، ون ونڈو بروکن لیگیسی کا مطلب ہے کہ ایک کرسی توڑ دی جائے تو اس سے تین بندوں کے لیے نئی نوکری پیدا ہو گی، لوہا بنانے والے، لوہے کوویڈنگ کر کے کرسی بنانے والے۔اور فوم بنانے والے، اب نوکری تو پیدا ہوگئی اور کاغذوں میں نوکری حاصل کرنے والے افراد کے نمبر میں بھی اضافہ ہوگیا لیکن یہ نوکری کتنی دیر تک باقی رہی؟جب تک کرسی کا کام مکمل ہوگیا، سب کی نوکریاں ختم۔ اگر انڈسٹری ہو، زراعت ہو،کوئی فیکٹری ہو، یہ نوکری کے وہ ذرائع ہیں جو مستقل ہوں گے۔ مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری محض تخلص کے آزاد نہیں بلکہ ان کی سوچ بھی آزاد ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نظریہ معیشت ان کا محبوب ترین موضوع ہے ،حال ہی میں آپ نے’’ مقالاتِ معیشت ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ،جسے رحیمیہ مطبوعات نے شائع کیا ہے ۔قرآن و سنت کی تعلیمات اور ولی اللہی تشریحات کی روشنی میں یہ کتاب لکھی گئی ہے ۔موجودہ دور میں معیشت کی بحالی کے لیے یہ کتاب نہایت عمدہ ہے ۔ایک مقام پر آپ رقمطراز ہیں۔’’یہ حیات اجتماعی بغیر کسی ایسے نظام کے متصور نہیں ہو سکتی، جب تک ان کے درمیان ایسا تعاون و اشتراک موجود نہ ہو‘ جس کی بنیاد عدل اور حق معیشت کی مساوات پر قائم ہو‘ تاکہ وہ ’’صالح معاشی نظام‘‘ کے لئے کلید بن سکے اور اس قسم کا تعاون و اشتراک جب ہی عالم وجود میں آ سکتا ہے کہ نظام معاشیات میں حسب ذیل اصول کارفرما ہوں: 1۔ وہ نظام ہر متعلقہ فرد کی معاشی زندگی کا کفیل ہو اور اپنے دائرہ عمل میں کسی بھی فرد کو معاشی زندگی سے محروم نہ رکھتا ہو۔ 2۔ ایسے اسباب وسائل کا قلع قمع کرتا ہو، جو معاشی دست بُرد (لوٹ مار) کا موقع مہیا کر کے افراد انسانی کے درمیان ظلم و استبداد کی راہیں کھولتے اور معاشی نظام کے فساد کا موجب بنتے ہوں۔ 3۔ دولت اور اسباب دولت کو کسی خاص فرد یا محدود جماعت کے اندر سمٹ آنے اور اس فرد یا جماعت کو نظام معیشت پر قابض و مسلط ہونے سے باز رکھتا ہو‘ تاکہ معاشی نظام تمام کائنات انسانی کی فلاح کے بجائے مخصوص طبقوں کے اَغراض کا آلۂ کار بن کر نہ رہ جائے۔ 4۔ محنت اور سرمایہ کے درمیان صحیح توازن قائم کرنا اور ایک دوسرے کی حدود پر غاصبانہ دست بُرد سے بچاتا ہو۔ حال ہی میں سپہ سالار نے تاجروں کے ساتھ ملاقات کی ،اس میں کیا رازو نیاز کی باتیں ہوئیں۔ ایسا تونہیں کہ سب کچھ راز کے پردے میں پنہاں رہے۔ چھن چھن کر اطلاعات آ رہی ہیں لیکن افواہ اور خبر میں تمیز مشکل ہے۔حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اقدام کرنے والوں میں سے اکثر آخری نتیجے پر پہنچنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ کئی سیاستدانوں کے نام سامنے آئے کہ ان کی پہلے مالی حیثیت کیا تھی اور اب کیا ہے ۔ایسے کرپٹ ،چور،ذخیرہ اندوز،مافیاز اوررشوت خوروں کا صفایا کرناہو گا ۔ مذکورہ چاروں اقسام اسی پر ہیں ۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں’’ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کوئی کام بغیر کسی منشا اور محرک کے وجود پذیر نہیںہوتا اور ہر عمل کی پشت پر ایک خاص ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ پس کسی ’’معاشی نظام‘‘ کے صالح اور فاسد ہونے کا معیار بھی اس کے محرّکات اور اس کے منشا کے صالح اور فاسد ہونے پر موقوف ہے۔ سو اگر اس کی پشت پر فاسد ذہنیت کام کر رہی ہے اور اس کے محرکات سر تا سر فاسد ہیں تو بلا شبہ وہ نظام ’’فاسد نظام‘‘ ہے اور اگر اس کی پشت پناہی ایک صالح ذہنیت کر رہی ہے اور اس کے تمام تر محرکات صالح اور اس کا منشا خیر ہے تو اس نظام کے صالح ہونے میں پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کا اقتصادی نظام ان تمام بدعنوانیوں کا سدباب کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے جو در حقیقت ’’اقتصادی نظام‘‘ کے مقصد اور نصب العین کو تباہ و برباد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔اور تجارت کے نام سے عام بدحالی اور قابل نفرت سرمایہ داری کو فروغ دیتی ہیں۔ اقتصادی نظام کو برباد کرنے اور اس کو کھوکھلا بنانے میں بدعنوانیوں کی جس قدر بھی تفصیلات و جزئیات ہو سکتی ہیں‘ وہ صرف دو بنیادوں پر قائم ہیں‘ اسلام نے اپنی اصطلاح میں ان کو دو خصوصی ناموں سے موسرم کیا ہے:1۔ ’’اکتناز‘‘(زر کی ذخیرہ اندوزی)2۔ ’’احتکار‘‘(اجناس کی ذخیرہ اندوزی)۔ احتکار سے مراد یہ ہے کہ دولت (ضروریات زندگی) سمٹ کر کسی ایک ہی طبقہ میں محصور و محدود ہو جائے اور اکتناز کی معنی یہ ہیں کہ دولت کے عظیم الشان خزانے افراد کے پاس جمع ہو جائیں اور ان کے پھیلائو اور تقسیم کی کوئی راہ باقی نہ رہے۔ اسلام نہ اس کو منظور کرتا ہے اور نہ اس کو۔ اس لئے وہ ہ معاشی و اقتصادی شعبے میں ان دونوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعے جہاد کرتا اور دونوں ملعون راہوں کو بند کرتا ہے۔ لندن کی آب و ہوا سے آشنا‘ خبریں سونگھنے والے یک زبان ہیں: کہ نواز شریف پابہ رکاب ہیں مگر فیصلہ ساز پوری طرح تعاون پہ یکسو نہیں۔اگر صاحب تشریف بھی لے آتے ہیں ، تو ان کی دلی منشا ہے،لاہور پہنچیں تو تمام شہر گلیوں میں امڈ آئے ،گرما کا شباب۔موسم بہار میں بدل جائے۔شاعر نے کہا تھا : حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے